انوکھی کہانی Part 79,80,81
بی نبی چلا میں اپنے خیالات میں کھوئی ہوئی تھی مجھے فواد نے کاندھے سے پکڑ کر بلایا۔ کیا بات بے گڑیا۔۔ اس کا ایسے گڑیا کہنا مجھے بہت اچھا لگا میں نہال ہی تو ہو گئی اس کی ام اس ادا پر کک کچھ نہی یار بس ویسے ہی کوئی پریشانی ہے تو مجھے بتاؤ وہ مجھ سے بڑے پیار سے پوچھ رہا تھا اور میں بس اس کی آنکھوں میں کھائی ہوئی تھی وہ بار بار اپنا ہاتھ میرے سامنے لہرا کر مجھے اسی دنیا میں واپس لے کر آتا۔ جب میں کافی دیر تک بھی واپس اپنے بواس میں نہی آئی تو وہ جھنجلا اٹھا دیکھو اگر تم کو میرے ساتھ ایسے آنا اچھا نہی لگ رہا تو بھی بتا دو میں تم کو زبردستی نہو روکوں گا. وہ کچھ روٹھ سا گیا تھا۔ ارے نن نبی نبی ... ایسی بات نہی ہے فواد جو بات ہے پریشانی کی وہ میں ابھی تم کو بتاتی ہوں ۔ مگر تم
ابھی اپنا موڈ ٹھیک کرو پلیز ایسے بلکل بھی اچھے نہی لگ
رہے ہو. اچھا چلو پہلے اپنی پرابلم بتاؤ - وه بهی ضد پر اڑ گیا تها.... اچھا بابا
بتاتی ہوں
میں کہیں بھاگی جا رہی ہوں کیا ... چلو اب بتاؤ بھی وہ
بھی ایس تلنے والا نہی تھا مجھ سے جب تک پوچھ نہی لیتا آئے چین سے نہی بیٹھنا تھا۔
میں نے ایک لمبا سانس لیا اور پھر فواد کوسب بتا دیا کہ میری باجی اور اس کے ہسبنڈ
کے ساتھ کیا پرابلم چل رہی ہے۔ بس !!!!!!!!!!! اتنی سی پرابلم کے لئے تم اتنی زیادہ
پریشان ہو رہی تھی میں سامجھ پتا نہی کتنی بڑی پرابلم ہو گی۔ بابابابا وہ میری بات
سن کر ہنس دیا اور ہونکوں کی طرح اس کا منہ تکے جا رہی تھی۔ ارے یار میں تمھارے
بہنوئی کا لن ایسے ثانٹ کر دو گا کہ ساری ساری رات اس کا بيتها نبی کرے گا اور جب
تک تمهاری بین تین چار دفعہ فارغ نبی ہو جاتی وہ فارغ نہی ہوا کرے گا اچھا !!!! میں
نے اپنا لہجہ معنی خیز کر کے کہا جی جناب اور اگویسے اتنا یقین آپ جناب کو کیسے
ہے؟ اگر تم کو یقین نہی ہے تو میں تم کو اس کا تجربہ بھی کروا سکتا ہوں فواد نے میری
طرف جھک کر بڑے رازدار انداز میں کہا
اچها !!!!!!!! میں نے معنی خیز انداز میں کہا ۔ تو جناب
خود پر بڑا اعتماد ہے آپ کو؟ کہیں ایسا نا ہو کہ پہلے ٹیسٹ میں ہی جناب فیل ہو جائیں۔
آزمائش شرط ہے ۔ فواد چیک کر بولا اچھا تو ٹھیک ہے مگر چیک کہاں کرنا ہے؟ میں نے
اپنی بھنوئیں اچکاتے ہوئے اس سے پوچھا امممم ایسا کرتے ہیں میرے اسی بوتل میں کمرہ
لے لیتے ہیں اور ادھر بی چیک کر لیتے ہیں۔ چلیں ٹھیک ہے۔ میں نے ہامی بھر لی فواد
ٹیبل سے اٹھا اور کاؤنٹر پر جا کر کمرہ بک کروانے لگا تھوڑی دیر بعد واپس آیا اس
کے منہ پر خوشی کی جگہ مایوسی تھی میرے پوچھنے پر بتانے لگا کہ ادھر کوئی کمره
فارغ نہی ہے اور ہمیں کہیں اور جانا پڑے گا۔ فواد کی بھوکی نظریں میرے سینے کا
طواف بار بار کر رہی تھی اور میں اس بات کو اچھے سے جانتی تھی میں نے بھی اسے روکا
نہی اور ایسے ہی اس کو انجوائے کرنے دیا۔... اب پھر کیا کرنا ہے ؟؟ میںنے پوچھا
کچھ کرتا ہوں اچانک میں بولی ڈاکٹرصاحب آپ کے کلینک کے بارے میں کیا خیال ہے ؟
وبانتو آج کوئی بھی نہی ہوگا نا؟؟ میں نے ایک نقطہ سجھایا. ارے ے ےےے واؤؤؤؤؤ یہ
بات تو میرے ذہن میں آئی ہی نہی تھی کیا بات ہے نوشی جی.. تم تو کمال ذہن کی مالک
ہو بی بی بی ہی ۔ میں کھی کھی کر کے ہنس دی۔ ہم ہوٹل سے اٹھے اور فواد کے کلینک کی
طرف رخ کر دیا..... کار میں بیٹھ کر میں نے اپنی شرٹ کے اوپر والے دو بٹن کھول دئیے
جس سے میرا کالا کلر کا برا صاف نظر آنے لگا۔ اور میرے مموں کی لکیر فواد کو پاگل
کرنے کے کافی تھی. افففف نوشی جی کیوں میری جان نکالنے پر تلی ہوئی ہیں آپ آج فواد
رومانٹک انداز میں بولا میں آپ کی جان نکال نبی رہی بلکہ آپ میں جان ڈال رہی ہوں
.... بابابابابا فواد کھلکھلا کر ہنس دیا۔ چلیں ابھی آپ جان نکال لو بعد میں میں
نکال لوں گا تمھاری جان بائیں؟؟ وہ کیسے ؟؟ میں حیران ہو کر بولی بابابابا ڈارلنگ
تم ایک بار کلینک تو پہنچ لو پھر بتاتا
ہوں۔ ابو !!!!!!!!!! مجھے تو اب خیال آیا ہے کہ جناب کیسے
میری جان نکال سکتے ہیں۔ میں نے ایک دم چونک کر کہا کیا مطلب میں سمجھا نہی فواد
ستپتا کر بولا وہ ایسے حضور کہ آپ جناب تو ڈاکٹر ہیں۔ میں نے مزے لیتے ہوئے جواب دیا
ہاں تو ؟؟؟ فواد ابھی تک الجھا ہوا تھا... تو میرے بدھو عاشق صاحب آپ کوئی گولی
شولی کها کر بهی میری جان نکالنے کا پورا انتظام کر سکتے ہیں۔ نا بابا مجھے نہی
جانا آپ کے ساتھ ... میں نے باقاعدہ ہاتھ جوڑ کر فواد کو چڑایا ارے ے ے ے لے لے۔ یہ
کس کنجر نے تم سے کہہ دیا کہ میں ایسا کوئی بھی ارادہ رکھتا ہوں فواد نے آنکھیں
دکھاتے ہوئے کیا. میری امی نے کہا ہے ایسا میں نے اپنی بنسی کو کنٹرول کرتے ہوئے
فواد سے کہا۔۔۔۔ بائیں ؟؟؟؟؟ یہ تم اپنی امی کو بھی بتا کر آئی ہو کہ تم میرے ساتھ
میرے کلینک پر جا رہی ہو. فواد جهنجهلا گیا بابابابا ابا... میں زور زور سے ہنسنے
لگ گئی میری ہنسی نبی رک رہی تھی۔ جب میں
ہنس ہنس کر بے جا ہو گئی تو مجھے فواد کا پھولا اور
الجھن ذده چهره نظر آیا اس کو دیکھ کر ایک بار پهر میری بنسی چھوٹگئی فواد نے چار
سڑک کے ایک طرف روک دی اور میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا۔۔۔ ارے بابا کیا
ہو گیا ہے تم کو میں کیوں اپنی امی کو بتا کر آنے لگی یہ سب کچھ میں نے بڑی مشکل
سے اپنی ہنسی روک کر کہا تو پھر ؟؟ فواد نے الجھتے ہوئے سوال كيا... افففف خدایا ایک
تو آپ کو مذاق بھی سمجھانا پڑ جاتا ہے۔ اچھا چلو اب سمجھاؤ میں ابھی تک الجها بوا
ہوں تمھاری باتوں سے۔۔۔ ارے یار سیدھی سی بات ہے آپ ڈاکٹر ہو اور آپ کے پاس تو ہر
قسم کی گولی ہو سکتی ہے اور آج آپ اس کا فائدہ بھی انها سکتے ہیں۔ میں نے وضاحت کی
تو فواد که سیانا ہو کر رہ گیا بابا ابابابا واقعی یہ تو سامنے کی بات تھی جو مجھے
سمجھ جانی چاہئے تھی مگر تمهارا جادو ہی ایسا ہے کہ میرے حواس بی کام نہی کر رہے
تھے بابابابا فواد مجھے بہت معصوم سا
لگ رہا تھا یہ بات کرتے ہوئے ۔ اور اس پر مجھے ڈھیروں
ڈھیر پیار آ رہا تھا. مجھ سے رہا نہی گیا اور میں نے آگے ہو کر فواد کا گال چوم لیا.
ارے ارے ارےےے۔ بس بس بس -- فواد نے احتجاج کرتے ہوئے کہا میں ایک بار پھر بنس دی...
اسی دوران ہم کلینک پہنچ گئے ۔ فواد نے اپنا سپیشل کمره کھلوایا اور ملازم کو کولڈ
ڈرنک لینے بھیج ديا... كولڈ ڈرنک آنے تک ہم ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے۔ اس کا یہ
کمرہ بہت بی نفاست سے سجایا گیاتها. میں تعریف کئے بنا نہ رہ سکی اچھا تو یہ کمرہ
اسی مقصد کے لئے بنایا ہوا ہے جناب نے ہے نا؟؟؟ میری شرارت کی رگ ایک بار پھر پھڑک
اٹھی ... بابابابا ارے نبی یار ایسی کوئی بات نہیے یہ کمرہ میں نے اس لئیے بنوایا
ہے کہ جب کبھی کام سے تھک جاؤں تو یہاں آ کر آرام کر لیتا ہوں ... فواد نے جواب دیا
اچھا اور ساتھ تھکاوٹ اتار بھی لیتے ہوں گے ۔ بے نا؟؟؟؟ میں نے ایک بار پھر سوال
کر دیا یار تھکاوٹ لوڑا اتارنی تھی
تم آج سے پہلے کبھی ملی ہی نہی تھی جو میں تھکاوٹ
اتارتا.... اچھا جی اس کا مطلب ہے کہ ارادے پہلے ہی ٹھیک نہی تھے تمھارے۔۔۔ میں نے
ناک چڑھاتے ہوئے کہا۔ اس سے پہلے کہ فواد کچھ کہتا ملازم کولڈ ڈرنک لے کر گیا۔
کمرے میں اے سی لگا ہوا تھا کافی پر سکون ماحول تھا۔ میں ریلیکس ہو کر بیڈ پر بیٹھ
گئی..... فواد میرے پاس آ کر بیٹھ گیا. وہ جیسے ہی قریب آیا اس کی مسحور کن خوشبو
میرے نتھنوں میں اتر گئی۔ میں نے ایک لمبا سانس لیا اور اس کی خوشبو کو اپنے اندر
اتار لیا پتا نہی کیوں میری آنکھوں میں نمی آ گئی گو کہ ابھی اس کے پاس بیٹھی ہوئیتھی
مگر اس کی جدائی کا غم ابھی سے میرے کلیجے کو کاٹ رہا تھا کیا بات ہے میری جان؟؟
فواد نے میرے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے بڑے پیار سے پوچھا... کچھ نہی جان بس
ویسے ہی آنکھ میں کچھ پڑ گیا ہے شائد میں بات کو ٹال گئی ۔ میں نہی چاہتی تھی کہ
فواد کو میری اس کمزوری کا ذرا سا بھی احساس
ہو۔ فواد نے میری ران پر ہاتھ رکھ دیا۔ میں نے اس کا
ہاتھ بٹانے کی کوشش بھی نہی کی اور ایسے ہی اس کے ہاتھ کو رہنے دیا۔ میرا جسم اب
بولے بولے کانپ رہا تھا۔ یہ میرا پہلا تجربہ نہی تھا سیکس کا مگر پتا نہی کیوں
فواد کے ساتھ میری فیلنگز کچھ اور تھی۔ میں نے اسے : کبھی سیکس کے انداز میں نہی
سوچا تھا۔ میں اسے پیار کرتی تھی اور دل جان سے کرتی تھی اور میری یہ خواہش بلکل
بھی نبی تھی کہ وہ بھی مجھے ایسے بی چاہے میری بس اتنی سی خواہش تھی کہ وہ میرے
سامنے رہے ... مجھے اور کچھ نہی چاہئے تها... فواد کا دوسرا ہاتھ میرے سینے پر رینگ
رہا تھا۔ میںنے اس کی طرف اپنے ہونٹ کر دیئے ۔ جن کو اس نے بڑے پیار کے ساتھ اپنے
ہونٹوں میں قید کر لیا اور میرے ہونٹوں کو ایسے چوس رہا تھا جیسے یہ بہت ہی نازک
کانچ کے ہیں جو ذرا سی ٹھوکر سے ٹوٹ جائیں گے۔ میں اس کا پورا ساتھ دے رہی تھی میں
نے اپنی زبان نکال کر اس کےہونٹوں کا پھیرنے لگی... فواد نے میری زبان کو اپنے منہ
میں لے لیا اور اتنے انوکھے انداز سے اس کو چوس رہا تھا کہ مجھے آج تک ایسا مزہ نہی
ملا تها جيسا اب مل رہا تھا... میں آہستہ آہستہ جوش میں آرہا تھی..... مگر میں نے
ابھی تک اس کا لن نہی پکڑا تھا. پھر فواد نے میری گردن کو پکڑا اور مجھے اپنی گود
میں گرا لیا اور میرے ہونٹوں کو دیوانہ وار چومنے چاٹنے لگ گیا۔ کبھی اس کی زبان میرے
ہونٹوں کو ٹچ کرتی کبھی وہ میری زبان کو اپنے منہ میں لے کر چوستا... پھر اس نے
اپنی زبان میرے منہ میں داخل کر دی۔ میں اس کی زبان کو جتنا ممکن تھا اپنے منہ کے
اندر لے گئی اور ایسے چوسنے لگی جیسے کوئی بچہ بت دنوں سے بھوکا ہو اور اس کو آج
جا کر کہیں مدت بعد دوده ملا ہو پینے کے لئے میں اس کی زبانکی مٹھاس اپنی روح میں
اتار رہی تھی اور میرا دل کر رہا تھا کہ ایسے ہی یہ وقت رک جائے اور میں كبهى بهی
فواد کے ہونٹوں سے الگ نہ ہوں پھر
فواد نے میری شرٹ کے بٹن کھول دئے اور میرے ممے اپنے
سامنے ننگے کر لئے۔ میرے بھرے بھرے ممے دیکھ کر فواد کی رال ٹپک پڑی وہ برا کے
اوپر سے ہی ان کو دبانا شروع ہو گیا۔ میں آج خود سے کچھ بھی کرنے کے موڈ میں نہی
تھی۔ میرا دل کر رہا تھا کہ فواد خود بی سب کچھ کرے۔ مجھے ننگا بھی وہی کرے اور جو
بھی کرنا ہے مجھے خود سے نہ کرنا پڑے۔ میں آج سچ میں اس کی غلام بنی ہوئی تھی وہ
آج مجھے جو کچھ کہتا میں نے کرنا تھا اور بلا چوں چراں کرنا تھا۔ میں آج اپنے دلبر
جانی کو خوش کرنے کے لئے آئی تھی نہ کہ خود خوش ہونے آئی تھی آج اس کا ٹائم تھا۔
بعد میں جب دوبارہ ملیں گے تو میں بھی اپنی ساری خواہشیں پوری کر لوں گی اس پر
فواد میرے مموں کو اتنی زور سے دبایا کہ میری چیخ نکل گئی مگر میں نے اپنی چیخ کو
اپنے منہ میں ہی دبالیا میں نبی چاہتی تھی کہ میرا محبوب دسترب ہو یا وہ اپنا کام
روک دے مجے درد سے زیادہ مزہ آ رہا تھا۔
میں نے اپنا سینا تان لیا۔ یہ دیکھ کر فواد اور بے قابو
ہو گیا اور اس نے اپنا ہاتھ میرے برا کے اندر ڈال دیا۔ میں نے اسے کہا جان اگر برا
تنگ کر رہا ہے تو اسے اتار کیوں نہی دیتے ہو؟ نبی جان تمھارے ممے برا میں اتنے قیامت
خیز لگ رہے ہیں تو باہر نکل کر قیامت ہی ڈھا دیں گے۔۔۔ فواد نے میرا ایک نپل اپنی
دونوں انگلیوں میں لے کر اس کو ہلکا سا مسل دیا... اففففف ایک مزے کی لہر میرے جسم
میں دوڑ گئی میری شرٹ ابھی تک میرے جسم پر ہی تھی میں نے اوپر ہو کر افراد کو اپنی
شرت اتارنے کا کہا۔ اس نے بنا کچھ کہے میری شرت میرے جسم سے الگ کر دی اور اپنی
شرٹ بھی اتار دی اب میرے سامنے فواد کا بالوں بھرا سینہ تھا۔ میں نے بے اختیار اپنے
ہونٹ اس کے سینے سے لگا دیئے۔ اس کے سینے سے بڑی بھینی بھینی خوشبو آ رہی تھی میں
اس کی خوشبو
سونگ بی تھی اور مدہوش ہو رہی تھی پھر فواد نے میری کمر
پر اپنا ہاتھ کر کے میری برا کا ہک
کھول دیا۔ میرے ممے ایک دم سے آزاد ہو گئے تھے اور فواد
نے جلدی سے اپنا منہ میرے موٹے موٹے مموں پر رکھ دیا۔ وہ میرے مموں کو بھنبھوڑ رہا
تھا اور میں مزے کی نئی دنیا سے متعارف ہو رہی تھی میرے انگ انگ میں مزے کی لہر
دوڑ رہی تھی۔ میں نے فواد کا سر اپنے مموں کے ساتھ دبا دیا۔ پہلے تو فواد بڑے پیار
کے ساتھ ممے چوستا رہا پھر اس نے اچانک میرے نپل پر اپنے دانت بڑی بے رحمی سے گاڑھ
دئے۔۔۔ میری جان نکل گئی۔ میں نے بہت کوشش کی مگر پھر بھی میری چیخ نکل ہی گئی پتا
نہی کیا بات تھی جو بھی میرے ممو چوستا وہ بے قابو ہوجاتا اااااااب آرام سے میری
جان یہ تمھارے ہی ہیں۔ میں نے فواد کو روکتے ہوئے کہا مگر وہ کہاں رکنے والا تها
جان تمهارے ممے اتنے مزے دار ہیں کہ میں خود کو روک نہی پایا اور میرا دل کر رہا
ہے کہ میں تمھارے مموں کو کھا جاؤں تو کھا جاؤ نا میری جان کسی نے روکا تھوڑی ہے۔
میں نے
شہوت بھری آواز میں کہا۔۔۔ اس نے اتنا سننا تھا او کیا
مطلب تم کو پتا تھا سب کچھ؟ میں نے بکلاتے ہوئے سنی سے پوچھا جی جناب میں سپیشل تم
دونوں کو ادھر لے کر آیا ہی اسی مقصد کے لئے تھا اور آج جو تمهاری ویڈیو انٹرنیٹ
پر براه راست دکھائی گئی ہے تو اس سے میری چینل کو بہت زیادہ پذیرائی ملی ہے ....
سنی مجھے بتا رہا تھا اور میں ہونکوں کی طرح منہ پھاڑے آنکھیں کھولے اس کی شکل تکے
جا رہی تھی دوسرے دن ہم لوگ جہاز میں بیٹھ کر پاکستان واپس آ گئے۔ واپس آکر کچھ دن
آرام سے گزر گئے کوئی خاص واقع نبی ہوا جو قابل ذکر ہو۔ پھر ایک دن میرے بہنوئی
ہمارے گھر آئے اور میری بہن ہمارے گھر آئی شام کو جب ہم چائے پی رہے تھے تو مجھے ایسا
محسوس ہوا کہ جیسے وہ کچھ پریشان ہے۔۔ میں نے پوچھا تو وہ بات ٹال گئی رات کے
کھانے کے بعد میں نے پھر بات چھیڑ دی پہلے تو وہ ٹال مثول کرتی رہی مگر میں بھی
اپنی ضد پر قائم رہی
آخر کار اسے بار ماننی ہی پڑی یار کیا بتاؤں تمهارے
بہنوئی صاحب نے بہت تنگ کیا ہوا ہے۔۔۔ کیوں کیا ہوا ہے؟ کیا کہہ رہے ہیں وہ ؟؟ کہہ
نہی رہے مگر کر بھی کچھ نہی رہے۔ رات کو میں ترپتی رہتی ہوں اور وہ کرتے کچھ نہی میں
باجی کا منہ تک رہی تھی میرا مطلب ہے کہ میں انکو پاس ننگی ہو کر بھی لیتی رہوں تو
بھی ان کا لن کھڑا نہی ہوتا اگر ہو بھی جائے تو میری پھدی کا پانی نکالے بغیر ہی یہ
اپنا پانی نکال دیتے ہیں اور پھر لاکھ کوشش کر لو ان کا کھڑا نہی ہوتا اور پھر یہ
سو جاتے ہیں اب اس وجہ سے میرے جسم میں درد رہتا ہے اور طبیعت بھی خراب رہتی ہے-
ہممم.... میں نے ایک بنکارہ بھرا... پھر باجی بولی میں نے دوسرے طریقے بھی اپناکر
دیکھے ہی مگر کوئی خاص فائده نبي بوا.... مثلان کیا طریقے کر کے دیکھے ہیں؟ میں نے
باجی سے پوچها مثلان کھیرا او لمبے بینگن بھی اپنی پھدی میں ڈال ڈال کر دیکھا ہے مگر
میری آگ ہے کہ ٹھنڈی ہونے کا نام ہی نہی
لے رہی میری آگ بڑھتی جا رہی ہے میں کیا کروں کچھ سمجھ
نہی آتا باجی بات کرتے کرتے جذباتی ہو گئی اور ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ میں ایک
لڑکی تھی میں چاہ کر بھی کچھ نبی کر سکتی تھی اپنی باجی کے لئے۔ باجی یہ مسئلہ کب
سے ہو رہا ہے؟ میں نے باجی سے پوچھا۔ یہ پچھلے چھ ماہ سے ایسا ہو رہا ہے۔۔۔ میننے
کافی دفعہ کیا کہ کسی ڈاکٹر کو چیک کروائیں مگر یہ سنتے ہی نبی ہیں... آخر مثلہ کیا
ہے یہ کیوں نہی جاتے کسی ڈاکٹر کے پاس؟ میں نے پوچھا۔ پتا نبی یار ان کا کیا مسئلہ
ہے۔ شائد یہ اپنی مردانگی پر کوئی حرف نبی برداشت کر سکتے مینتو اب تھک گئی ہوں میں
باجی کی بات سن کر کافی پریشان ہو گئی تھی یہ مسئلہ واقعی کافی بڑا مسئلہ تھا۔ مگر
میں کیا کر سکتی تھی؟ کچھ بھی نبی میں جب رات کو اپنے بیڈ پر سونے کے لئے لیٹی تو
بھی میرے ذہن میں باجی کا روتا ہوا چهره آ رہا تھا۔ میں ساری رات کروٹیں بدلتی رہیمگر
نیند تھی کہ آنکھوں سے
جیسے روٹھ گئی تھی ۔ نبیل نے مجھے پوچھا بھی مگر میں طبیعت
خرابی کا بہانا بنا کر چپ کر گئی نبیل نے بھی مجھے ڈسٹرب کرنا مناسب نبی سمجها....
صبح ہوئی تو میری آنکھیں سوجی ہوئی تھی اور جسم بہت درد کر رہا تھا۔ سر میں شدید
درد تها مجھ سے اٹھا نہی جا رہا تھا۔ نبیل اور انکل کو ناشتہ کروا کر انٹی نے آفس
بھیج دیا میرے پاس باجی آئی وہ بھی پریشان تھی کہ مجھے کیا ہوگیا ہے پھر مجھے باجی
نے بتایا کہ آج ان کے شوہر ان کو لینے آ رہے ہیں ہم میں نے پر خیال انداز میں سر
ہلا دیا.... پھر اٹھ کر میں نے نیا کر کپڑے بدلے اور ناشتہ کرنے کے بعد گھر کے
کاموںمیں لگ گئی دن کیسے گزرا پتہ ہی نبی چلا شام ہوئی تو ارسلان بھائی باجی کے
شوہر بھی آگئے۔ وہ شکل سے کافی تھکے ہونے لگ رہے تھے۔ میری نظر نا چاہتے ہوئے بھی
ان کی پینٹ میں کوئی ابھار ڈھونڈ رہی تھی جس میں ظاہر ہے مجھے ناکامی بی ہوئی ...
میں کچھ میں گئی اور اشارے سے باجی کو
اپنے پاس بلا لیا. میں نے ان سے کہا کہ اب آپ میں اور
ہم گھر والوں میں کوئی پرده تو رہا نبی آپ جائیں اور بھائی کے سامنے اپنا دوپٹہ
اتار کر اپنے مموں کا نظارہ کروائیں ان کو شائد ان کی ٹانگوں کے درمیان کوئی ہلچل
پیدا ہو جائے۔ ابھی میں اپنی بات مکمل بھی نہ کر پائی تھی کہ باجی بول پڑی کچھ نہی
ہو گا چھوٹی میں یہ سب کچھ کافی دفعہ کر چکی ہوں ۔ میں نے تم کو کل بھی بتایا تھا
کہ میں ان کے سامنے ننگی بھی لیٹ جاؤں تو ان کا لن کھڑا نبی ہوتا۔ باجی میرے کہنے
پر ایک بار کر کے تو دیکھیں شائد کچھ فرق پڑ جائے آج باجی مایوسی کے ساتھ نفی میں
سر ہلا کر کچن سے باہر چلی گئی میرا دل کٹ کر رہ گیا۔ میں باجی کے لئے کچھ کرنا
چاہ رہی تھی مگر کیا کروں کچھ سمجھ نبی آ رہا تھا رات کا کھانا کھا کر وہ لوگ جانے
لگے تو میری ساس نے ان دونوں میاں بیوی کو روکنے کی کوشش کی مگر وہ رکے نبی اور
اپنے گھر چلے گئے۔ دوسرے دن میں نے باجی کو
فون کر کے پوچھا کہ رات کیسی گزری ہے تو وہ پھوٹ پھوٹ
کر رونے لگ گئی۔ میں نے تسلی دیاور ان سے کہا کہ مجھے تفصیل میں بتائیں کہ کیا ہوا
ہے۔ تھوڑی دیر رونے کے بعد وہ بولی کہ
0 Comments