Ticker

6/recent/ticker-posts

Ad Code

انوکھی کہانی Part 67,68,69

 



دکھائی یہ دیکھو تمھارے شوہر نے میری پھدی کا کیا حالکر دیا ہے۔ میں نے بھی کھیرا ان دونوں کے سامنے اپنی پھدی سے باہر نکالا اور کیمرے کے سامنے کرتے ہوئے کہا۔ ہ دیکھیں آپ دونوں میری پهدی کا کتنا پانی نکلا ہے۔ اففففف.. سکون ہو گیا ہے آج تو پھر ہم نے تھوڑی دیر اور بات کی اور پهر کال بند کر دی۔ میں نے شاور لیا اور تازہ دم ہو کر اپنے بیڈ پر لیٹ گئی .... کپڑے میں نے نہی پہنے تھے۔ مجھے نہی پتا چلا کب میری آنکھ لگ گئی

 

پھر ہم نے تھوڑی دیر اور بات کی اور پھر کال بند کر دی۔ میں نے شاور لیا اور تازہ دم ہو کر اپنے بیڈ پر لیٹ گئی ... کپڑے میں نے نبی پہنے تھے۔۔۔ مجھے نہی پتا چلا کب میری آنکھ لگ گئی ....... صبح جب آنکھ کھلی تو امی اور سنی باسپتال جائے کے لئے تیار ہو رہے تھے۔ ناشتہ ابھی انہوں

 

نے نہی کیا ہوا تھا۔ میں نہا کر فریش ہوئی اور ہم سب نے مل کر ناشتہ کیا. پھر ہم تینوں ہسپتال کے لئے نکل گئے وہاں میری ساس کے کچھ اور تیستہوئے اور ڈاکٹرز نے دوائی میں کچھ تبدیلی بھی کی میری ساس کی حالت اب کافی بہتر تھی... یہاں آکر بھی مجھے ڈاکٹر فواد کی یاد بہت آ رہی تھی۔ میں چاہ کر بھی اس کو بھلا نہی پا رہی تھی۔ پتا نہی کیوں اس کے بارے میں سوچتے ہوئے میرے دل میں کبھی بھی سیکس کے جذبات پیدا نہی ہوئے تھے۔ یہ شائد اس کے پیار کا اثر تھا یا کچھ اور تھا. مگر کچھ تو تھا. میرے پاس اس کا نمبر بھی تھا. میں ایک شام باہر گھوم رہی تھی وہاں ایک کیل سڑک کنارے بیٹھا بڑے بی رومینٹک انداز میں ہاتھ میں ہاتھ پکڑے پیار سے باتیں کر رہے تھے۔ میرے دل میں فواد کی یادنے انگڑائی لی میں پھر خود کو روک نہی پائی اور ڈاکٹر فواد کا نمبر ڈائل کر دیا میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ کافی دفعہ بیل ہونے کے بعد بالآخر اس پرجانی کی

 

آواز میرے کانوں میں آئی هیلو اس کا مخصوص دهیما لہجہ میری روح کی گہرائی میں اتر رہا تھا۔ جج جی کیا حال ہے ڈاکٹر صاحب آپ کا؟ میں نے سوال کیا۔ جی میں ٹھیک ہوں آپ کون؟ لو جی جس کی یاد میں ہم یہاں مرنے کے قریب پہنچ گئے تھے اس کو ہماری آواز بی اجنبی لگ رہی تھی میں نے اپنا تعارف اچھے سے کروایا تو ڈاکٹر صاحب کو بھی یاد آ گیا کہ میں کون ہوں اور کہاں سے بات کر رہی ہوں۔ جی کہیے کیسے یاد فرمایا اس ناچیز کو؟ جی ڈاکٹر صاحب ایک بہت ہی گھمبیر پرابلم ہو گئی بے میرے ساتھ جی کیا ہوا؟ فواد نے جلدی سے سیریس ہوتے لہجے میں پوچھا.. میری بے اختیار بنسی نکل گئی جسے میں نے بڑی مشکل سے کنٹرول کیا . ہوا تو کچھ نبی - اور بہت کچھ ہوا بھی ہے۔۔۔ میں نے بلکے سے کہہ دیا۔ کا مطلب مس آپ کچھ بات کلیر کریں کہ کیا بات ہے۔ ڈاکٹر

 

صاحب بات کچھ ایسے ہے کہ میرے دل میں ایک درد ہے۔ میں نے آج فیصلہ کر لیا تھا کہ اس سے

 

اپنے دل کا حال کہنا ہی کہنا ہے۔ کیسا درد ہے محترمہ ؟؟ فواد نے مجھ سے پوچھا۔ ڈاکٹر صاحب ایسا درد ہے جس کی دوا ممکن نہی ہے۔۔ میں نے دھیمے لہجے میں جواب دیا... پھر بھی کچھ بتائیں بھی.. وہ اصل میں میرا دل کہیں کھو گیا ہے۔ اور مجھے اتنا بھی پتا ہے کہ کس نے چرایا ہے میرا دل.. اتنا کہہ کر میں خاموش ہو گئی۔ محترمہ اگر آپ کو پتا ہے کہ کس نے یہ حرکت کی ہے تو اس کے خلاف آپ کاروائی کریں نا فواد نے تھوڑے شوخ لہجے میں کہا۔ ڈاکٹر صاحب کیا کروں وہ پیارا بھی اتنا لگتا ہے کہ میں اس کے خلاف کوئی کاروانی بھی نبی کر سکتی. ایک منٹ محترمہ اگر آپ کے پاس واٹسایپ ہے تو میں اس پر کال کرتا ہوں یہاں آپ کو کال مہنگی پڑے گی فواد نے کہا۔ چلیں ٹھیک ہے میں واتسایپ پر کال کرتی ہوں پھر میں نے واٹسایپ پر کال کر لی جی اب بولیں اور دل کهول کر بولیں - فواد کی چہکتی ہوئی آواز آئی بولنا کیا ہے ڈاکٹر صاحب جس بندے نے

 

میرا دل چرایا ہے مجھے پتا ہے اس کا مگر مسلہ یہ ہے کہ میں اس کے خلاف کچھ کر بھی نہی سکتی وہ مجھے جان سے پیارا ہے۔ اچھاااااااااا فواد نے ایک لمبی سانس بھری پھر تو واقعی بہت پرابلم والی بات ہے۔۔ تو آپ ایسا کریں اس سے سیدھے سبھاؤ بات کریں کہ آپ کا دل آپ کو واپسکر دے... ہم میں بس اتنا ہی کہہ سکی۔ ویسے وہ خوش نصیب ہے کون؟ کیا میں اس کا نام جان سکتا ہوں؟؟ جس نے اتنی خوبصورت لڑکی کا دل چرا لیا ہے۔۔ کیا کریں گے آپ اس کا نام جان کر؟ میں نے سوال کیا کرنا کیا ہے۔ بس دل ہی دل میں اس بندے کو سرابوں گا ..... کیوں آپ کیوں سراہیں گے اس کو ؟؟ کیوں کہ میں تو چاہتا تھا کہ میں آپ کا دل چرا لوں مگر وہ مجھ سے زیادہ لکی نکلا اور پہل کر گیا... میری خوشی کی کوئی انتہا نا رہی یہ الفاظ فواد کے منہ سے سن کر میرا دل کر رہا تھا کہ ابهى فون سے باہر نکل کر فواد کا منہ چوم لوں مگر ہماری سبب خواہشیں پوری نہی ہو سکتی۔ بس میں

 

اپنا دل مسوس کر رہ گئی. اچھاااااااا.. اگر میں یہ کیوں کہ وہ آپ ہی ہیں جس نے میرا دل چرایا ہو تو پھر؟؟ اچااااا... تو یہ بات ہے۔ فواد نے گہرے لہجے میں کہا۔ میری جان میں تو تب سے آپ کا دیوانہ ہوں جب آپ پہلی بار میری کلینک پر آئی تھی تو پھر آ نے مجھ سے کہا کیوں نہی؟؟ میں نے شاکی لہجے میں کہا۔ میں ڈرتا تھا کہیں آپ ناراض ہی نا ہو جاؤ اور میں آپ کی ناراضگی کسی بھی صورت میں گوارہ نہی کر سکتا تھا۔۔۔ میں تم کو کھونے کا تصور بھی نہی کر سکتا تھا.... فواد کے لہجے میں پیار ہی پیار تھا اور میں اس کے پیار بھرے لہجے کی بارش میں بھیگ رہی تھی پتا ہی نہی چلا کب آنسو میری گال پر ڈھلک آئے تھے۔ میں سمجھی کہ بارشہو رہی ہے۔۔ مگر جب آسمان کی طرف نظر اٹھائی تو پتا چلا یہ بارش میری آنکھوں میں ہو رہی ہے۔ میری خاموشی سے شاند وه گهبرا گیا تھا۔ کیا ہوامیدم؟ کچھ نبی ڈاکٹر صاحب بس آپ کی باتوں میں کھو سی گئی ہوں... ساتھ ہیمیں نے شکوے کردیے۔ اوہ میری جان تھوڑا حاصلہ کرو ابھی تو تم مجھ سے بہت دور ہو جب پاس او گی تو جی بھر کے شکوے کر لینا.... ہم کافی دیر ایسے ہی بات کرتے رہے۔ ان باتوں میں کبھی پیار کی جھلک آجاتی تھی کبھی غصہ کبھی شکوے کبھی شکانت جب کال بند کی تو میں نے دیکھا کہ کال کا دورانیہ تین گھنٹے کا ہو چکا تھا.. یہ ٹائم کیسے گزر گیا پتا بھی نہی چلا یہاں لندن میں ہمیں اب کافی دن ہو گئے تھے۔ سارا لندن گھوم لیا تھا. بہت مزه رباتها.. اس سارے عرصے میں مجھے کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا کہ سنی کی آنکھوں میں میری ساس کے لئے کچھ عجیب احساسات ہیں۔ مگر شائد وہ ابھی تک اس لیئے چپ تھا کہ ڈاکٹرز نے ابھی میری ساس کو کسی قسم کی سیکس ایکٹیوٹی سے منع کیا ہوا تھا... پھر ایک دن ڈاکٹرز نے چیک اپ کر کے ہمیں خوش خبری دی کہ اب میری ساس بلکل ٹھیک ہیں اور اپنے شوہر کے ساتھ جسمانی تعلقات بنا سکتی ہیں۔ یہ بات سن

 

کر ہماری خوشی کی کوئی انتہا نا رہی۔ میں بہت خوش تھی میں نے یہ بار اپنے سسر اور شوہر کو بھی بتا دی کہ اب آنٹی بلکل ٹھیک ہیں واؤ ڈارلنگ جب آپ دونوں واپس آؤ گی تو ہم ایک پارٹی کا ارینج بھی کریں گے ... نبیل نے مجھے کہا۔۔ پھر ہم تینوں شام کے بعد باہر نکل گئے آج سنی نے ہمیں بابر لنچ کروانے کا وعدہ کیا ہوا تھا۔ واپسی پر سنی اپنے ساتھ ایک بوتل بھی لے آیا۔ انگلش سکاچ . آج بارش بھی ہوئی تھی اور موسم کافی ٹھنڈا ہو رہا تھا۔ میں تو گھر آ کر بستر میں گھس گئی مگر میری ساس اور سنی کچن میں چلے گئے۔ میں سردی سے بہت بریطرح کانپ رہی تھی ایسے میں میرا دل کر رہا تھا کہ کسی کی بانہوں میں گھس کر سو جاؤں مگر کس کے؟ پھر اچانک میرے ذہن میں سنی آ گیا واہ جی بنده بغل میں اور ڈھنڈورا شہر میں والی بات ہو گئ یہ تو میں یہ سوچ کر اپنے بستر سے باہر نکل آئی کہ سنی کے کمرے میں جا کر اس کے ساتھ لیٹ جاتی ہوں مگر جب

 

میں کچن سے سامنے سے گزری تو ایک عجیب منظر میری آنکھوں کے سامنے تھا۔۔۔ میری ساس اور سنی دونوں نے اپنے ہاتھوں میں شیشے نہائت بی نفیس گلاس پکڑے ہوئے تھے اور ان دونوں کے ہونٹ آپس میں ملے ہوئے تھے۔ میں پہلے تو اندر جانے لگی مگر پھر رک گئی۔ میں دیکھنا چاہتی تھی کہ اتنے دن کے انتظار کے بعد میں ساس کیسے اپنی پھدی سنی کے حوالے کرتی ہے۔ سنی اور میری ساس فرنچ کس کر رہے تھے۔ پھر سنی نے اپنا ایک ہاتھ میری ساس کے موٹے تازے مموں پر رکھ دیا۔ وہ اوپر اوپر سے بیمیری ساس کے ممے دبا رہا تھا. پھر میری ساس نے بھی اپنا اک ہاتھ نیچے کیا اور سنی کا لن اس کی پینٹ کے اوپر سے ہی مسلنے لگی... کبھی میری ساس کی زبان سنی کے منہ میں جا رہی تھی کبھی سنی کی زبان میری ساس کے منہ میں دونوں ایک دوسرے کی زبانوں کا مزہ لے رہے تھے۔ اور اسی دوران میری سردی بھی دور ہو چکی تھی اب اس سردی کی

 

جگہ ایک ہلکی ہلکی گرمی نے لے لی ہوئی تھی۔

 

میں قدرے اندھیرے میں تھی اس لیئے میرے دیکھے جانے امکانات صفر تھے میں کچن کے سامنے رکھی ہوئی کرسی پر بیٹھ گئی پھر سنی نے آنٹی کی شرٹ کے سامنے کو بٹن کھول دیئے۔۔ ابهی ایک ہی بٹن کھلا تھا کہ آنٹی کے ممے باہر آنے کو بے چین ہو گئے۔ شرٹ تنگ ہونے کی وجہ سے بٹن کھولنے میں کافی دشواری کا سمنا کرنا پڑ رہا تھا۔ کیوں کہ آنٹی اپنے بٹن ایک ہاتھ سے کھول رہی تھی دوسرا ہاتھ سنیکے لن کو سہلا رہا تھا۔ آنٹی کے ممے کافی ابھرے ہوئے تھے۔ سنی نے مزید انتظار کرنے زحمت سے بچنا ہی بہتر سمجها اور ایک ہاتھ انٹی کے گریبان میں ڈال کر اس کو زور سے ایک دم اپنی طرفجھٹکا دیا جس سے آنٹی کی شرت کے سارے بٹن ایک ہی دفعہ میں ٹوٹ گئے اور انٹی کے ممے ان کے پش آپ برا میں پھنسے ہوئے اب سنی کے سامنے تھے۔ سنی نے جب آنتی کے دودھ سے بھرے ہوئے ممے دیکھے

 

تو اپنے ہوش کھو بیٹھا۔ اس نے اپنا منہ آنٹی کے مموں میں غائب کر دیا۔ آنٹی نے اپنا سر پیچھے کی طرف کر کے سنی کو بھرپور موقع فراہم کیا کہ وہ آنٹی کے ممے کی خوشبو اپنے نتھنوں میں اتار لے اچھی طرح سے.... سنی نے اپنا ایک ہاتھ آنٹی کی بیک پر لے جا کر ان کی برا کی یک کھول دی اور ان کے مموں کو برا کی قید سے آزاد کر دیا... افففف... دودھ سے بھرے ہوئے چھلکتے ہوئے ممے اب سنی کے سامنے بلکل ننگے تھے ۔۔۔۔۔۔ سنی نے اپنا پورا منہ کھولا اور کسی بھوکے کتے کی طرح آنٹی کے مموں پر پل پڑا۔ آنٹی کے منہ سے مزے کی بهری بونی سکسی آوازیننکل رہی تھی اب... اممممم... افففففف..... سس سنی کها جاؤ آج میرے ممے بہت دن ہو گئے ان کو کسی نے کھایا نہی ہے۔ آج تم کھا جاؤ سارے

 

ابی اممممممم سنی بھی آنٹی کے حکم کے مطابق ان کے ممے بھنبوژ رہا تها.... پهر آنثى نے اپنا پاجامہ بھی اتار دیا اور سنی کے سامنے

 

بلکل ننگی کھڑی ہو گئی سنی نے آنٹی کو کچن کی شلف پر ہی بٹھا دیا اور ان کی ٹانگیں کھول کر پھیلا دی پھر اس نے اپنا منہ آنٹی کی پھدی کے پاس کیا اور ایک لمبا سانس لیا۔ میں سمجھ گئی کہ وہ آنٹی کی پھدی کی خوشبو سونگ رہا تھا... پهر اس نے اپنی لمبی زبان بابتنکالی اور ساری زبان انٹی کی پھدی میں داخل کر دی۔ آنٹی کا جسم ایک بار کانپ اٹھا۔ ظاہر ہے اتنے دنوں کے بعد ان کی پهدی میں کوئی چیز گئی تھی. انہوں نے اپنی ٹانگیں پوری کھول دی اور سنی کا سر اپنی پھدی کے ساتھ اور زور کے ساتھ چمٹا لیا۔ سنی نے پھر اپنے دانتوں کے ساتھ آنٹی کی پھدی پر چھولے کو كات لیا !!!! بہہ ظالم !!!!!!!!!!!!!!..... آنٹی کی سسکاری نکلی سنی نے جی بھر کے آنٹی کی پھدی کو کھایا .. جب سنی کا سارا منہ آنٹی کے پانی سے بهر گیا تو اس نے اپنا منہ ایک بار پھر سے آنٹی کے ہونٹوں کے ساتھ ملا دیا۔... آنٹی نے سنی کے ہونٹ چوس کر ان کو صاف کر دیا. پھر آنٹی نیچےبیٹھ گئی اور سنی کا لن اپنے منہ میں لے کر اس کو چوپے لگانے آگی آنٹی اپنا پورا منہ کھول کر سنی کا سارا لن اپنے منہ میں غائب کر رہی تھی اور نیچے سے سنی ککے لئے اپنی مخروطی انگلیوں کے ساتھ سہلا رہی تھی پھر آنٹی نے اپنی زبان سے سنی کے لئے چاٹ لئے۔ سنی نے اپنی آنکھیں لزت کی وجہ سے بند کر لی اور اپنے لئے جڑ سے پکڑ کر انتی کے منہ میں سارے داخل کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ آنٹی کے منہ میں سارے تو نہی آ رہے تھے مگر وہ کوشش کر رہی تھی کہ سنی کی یہ خواہش پوری ہو جائے پھر سنی نے اپنا لن آنٹی کے مموں میں ڈال دیا آنٹی کے اپنے مموں میں سنی کا دبا لیا اور اوپر نیچے مموں کو حرکت دینے لگی آنٹی کے ممے خشک تھے۔۔ سنی نے اپنا بہت سارا تھوک نکال کر آنٹی کے مموں پر گرا دیا۔ اب سنی کا لن بڑی آسانی کے ساتھانٹی کے مموں میں حرکت کر رہا تھا.... تھوڑی دیر بعد آنٹی کی ہمت جواب دے گئی - سنی میری جان اب میری ہمت

 

جواب دے گئی ہے۔ اور اب پھدی بھی بہت بے چین بو رھی ہے اس کا کچھ کرو... آنٹی نے ٹیبل پر بیٹھ کر اپنی ٹانگیں پھیلاتے ہوئے سنی سے کہا۔۔ سنی نے آنٹی کی ٹانگیں اپنے ہاتھوں میں پکڑی اور ان کو ہوا میں پھیلا کر اپنے لن کا ٹوپا آنٹی کی پھدی پر سیٹ کیا۔ آنٹی نے اپنی پھدی کو ہوا میں اٹھایا تاکہ لن آسانی سے اندر جا سکے۔ سنی نے اپنے لن دباؤ بڑھایا اور جب ٹوپا پھدی کے اندر چلا گیا تو پھر سنی رکا نہی اس نے ایک بھرپور جھٹکا مارا اور سارا لن جڑ تک انٹی کی پھدی میں داخل کر دیا۔ انٹی کی پھدی میں کافی عرصہ سے لن نہی گیا تھا۔۔ اب وہ خاصی تانت ہو چکی تھی۔ اس لیئے آنٹی کی دل خراش چیخ نکل گئی مگر سنی کے دماغ پر اس وقت صرف پهدی سوار تھی۔ اس نے جلدی سے آنٹی کے ہونٹ اپنے ہونٹوں میں لئے اور اس کی چیخ کو اپنے ہونٹوں میں گائب کر دیا.... آنٹی بھی کچھ کم نہی تھی اس نے سنی کی کمر کو اپنی ٹانگوں کے ساتھ جکڑ لیا اور اپنے دونوں بازو بھی

 

سنی کے سینے کے گرد لپیٹ دئے اور اس طرح سنی مکمل طور پر آنٹی کی گرفت میں آگیا اب وہ چاہتے ہوئے بھی آنٹی کو جھٹکے نبی مار سکتا تها.... تھوڑ دیر ایسے ہی رہنے کے بعد سنی نے خود کو آنٹی کی گرفت سے آزاد کروایا اور ایک بار پھر سے لن پھدی کا کھیل شروع ہو گیا... آہستہ آہستہ سنی نے اپنے دھکوں کی سپیڈ میں اضافہ کر دیا اور ایک سپیڈ کے ساتھ اب وہ آنٹی کو چود رہا تھا۔ آنٹی کے ممے سنی کے ہر جھٹکے کے ساتھ اوپر نیچے ہو رہے تھے اور ادھر میری پھدی کا برا حال ہو رہا تھا۔ میں چاہ رہی تھی کہ میری پھدی میں بھی لن جائے مگر میں ابھی ان دونوں کے رنگ میں بھنگ نہی ڈالنا چاہ رہی تھی۔ ایہہ ھائے لے لے لے لے لے لے لے افففففف .... یہ آوازیں دونوں کے منہ سے نکل رہی تھی. پھر اچانک ہی آنت کا جسم اکڑ گیا اور انہوں نے سنی کو اپنے ساتھ ملا ليا سمسسنن. سسننییی... سنی میری جان مری پهدیپهار دو آج ا ب میں گئی اور اس

Post a Comment

0 Comments